حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شام کے شہر حمص میں مسجد امام علی بن ابی طالبؑ کو نشانہ بنانے والے ہولناک دہشت گردانہ دھماکے کے خلاف علویوں کے قائد، عراقی مذہبی و سیاسی رہنما مقتدی صدر اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس حملے میں بچوں، بزرگوں اور عام شہریوں سمیت کم از کم 12 افراد کی شہادت اور 30 سے زائد افراد کے شدید زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
شام کی علوی اسلامی اعلیٰ کونسل نے اپنے بیان میں اس دہشت گردی کی سخت مذمت کرتے ہوئے موجودہ حاکم کو ان واقعات کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ حملہ کسی انفرادی یا وقتی کارروائی کا نتیجہ نہیں بلکہ منظم تکفیری دہشت گردی کا تسلسل ہے، جو علوی برادری سمیت دیگر شامی برادریوں کے خلاف بڑھتی جا رہی ہے۔ کونسل کے مطابق اس نوعیت کے حملے پہلے بھی دیکھے جا چکے ہیں، جن میں دمشق میں چرچ اور التنف میں امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات شامل ہیں، جو ایک ہی طرزِ فکر اور منصوبہ بندی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ علویوں کے قائد نے عالمی برادری، سلامتی کونسل اور بین الاقوامی اداروں سے فوری اور مؤثر اقدام، نیز شامی ساحلی علاقوں کو بین الاقوامی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب سید مقتدیٰ صدر نے بھی مسجد امام علیؑ پر ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور شامی حکومت پر زور دیا کہ وہ فرقہ وارانہ انتہا پسندی کو فوری طور پر لگام دے۔ انہوں نے کہا کہ عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا اللہ کی توہین ہے، مگر بے گناہ انسان کا خون بہانا اس سے بھی بڑا جرم ہے۔ انہوں نے امام علی امیرالمؤمنینؑ کا قول نقل کرتے ہوئے واضح کیا کہ انسان یا تو دینی بھائی ہے یا خلقت میں ہم مثل۔

ادھر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل گوٹریش نے بھی اس خونریز حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے شہریوں اور عبادت گاہوں پر حملوں کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ ان کے ترجمان کے مطابق ذمہ داران کی شناخت اور ان کا محاسبہ ناگزیر ہے، جبکہ شہدا کے لواحقین سے تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی گئی ہے۔









آپ کا تبصرہ